قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بدویوں نے کہا : ’’ہم ایمان لے آئے [٢٣] ہیں‘‘ آپ ان سے کہئے : تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے اور ابھی تک ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال [٢٤] سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔ اللہ یقیناً بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں: کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے۔ حالانکہ دراصل ایمان ان کے دل میں ابھی پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن دعویٰ انہوں نے اپنی اصل حیثیت سے بڑھ کر کیا تھا۔ جس پر انھیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں۔ آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔ اسلام اور ایمان میں فرق: اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز ہے۔ حدیث جبرائیل میں ہے جب جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’’ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں اور رسولوں کا یقین رکھے اور اس بات کا بھی کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے‘‘ اور جب جبرائیل نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تو صرف اللہ کی عبادت کرے اور اس کا شریک نہ بنائے نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔ (بخاری: ۵۰) اعمال میں کمی نہیں ہو گی: یعنی اب بھی تم اپنا رویہ درست کر لو۔ دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول کی طاعت کرنے لگو تو اللہ تمہارے سابقہ اعمال کا اجر تمہیں دے دے گا۔ اس میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اور تمہاری سابقہ خطائیں بھی معاف فرما دے گا ۔‘‘