يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ [٢٢] پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا یعنی آدم علیہ السلام سے اور ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت ہواعلیہا السلام کو پیدا کیا یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے کہ تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو۔ مطلب یہ کہ کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے۔ کیوں کہ سب کا نسب حضرت آدم علیہ السلام سے ہی جا کر ملتا ہے۔ا ور مختلف خاندانوں، برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپ آپس میں صلہ رحمی کر سکو۔ اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں۔ اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے۔ جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ معیار تقویٰ ہے۔ جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کونہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ (مسلم: ۲۵۶۴) اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں بیان فرمایا کہ ’’کسی گورے کو کالے پر کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ کیوں کہ تم سبھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔‘‘ (مسند احمد: ۵/ ۱۵۸)