يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو! (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق [١٤] نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے [١٥] کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی [١٦] نہ کرو۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام [١٧] رکھو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا [١٨] بہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔
ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے: اللہ تعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’تکبر نام سے حق ہے منہ موڑ لینے کا اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا۔‘‘ (مسلم: ۹۱) اس کی وجہ قران کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جسے تم ذلیل کر رہے ہو، جس کا مذاق اڑا رہے ہو۔ ممکن ہے خدا کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو۔ مردوں کو منع کرنے کے بعد عورتوں کو الگ سے ذکر کر کے انھیں بطور خاص اس لیے روک دیا گیا ہے کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے۔ طعنہ زنی نہ کرو: یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو۔ مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ سورہ نساء ۱۲۹ میں فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ، مقاتل بن حیان رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دو۔ پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت۔ جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہے اس لقب سے اسے نہ پکارو نہ اس کو برا نام دو۔ مسند احمد میں ہے یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو، دو، تین تین نام تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یا رسول اللہ! یہ اس سے چڑتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد: ۴/ ۲۶۰، ابو داؤد: ۴۹۶۲) پھر فرمایا اپنے طور پر تحقیر اور استہزا کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انھیں ناپسند ہوں۔ یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا نہایت بری بات ہے۔ اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہیے ورنہ ظالم ہو جاؤ گے۔ یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کر کے بلانا، یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا، مثلاً اے کافر، اے زانی یا شرابی وغیرہ کہہ کر پکارنا۔ البتہ اس سے بعض کے نزدیک بعض صفاتی نام اس سے مستثنیٰ ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہو جائیں۔ اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں۔ جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے۔ کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے وغیرہ۔ (القرطبی)