وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
وہی تو ہے جس نے وادی مکہ میں تم سے ان کے ہاتھ روک [٣٤] دیئے اور ان سے تمہارے جبکہ اس سے پہلے اللہ تمہیں ان پر غالب کرچکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے ۸۰ آدمی جو ہتھیاروں سے لیس تھے اس نیت سے بھیجے کہ اگر انھیں موقعہ مل جائے تو دھوکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے خلاف کاروائی کریں۔ چنانچہ یہ مسلح جتھا جبل تنعیم کی طرف سے حدیبیہ آیا، جس کا علم مسلمانوں کوبھی ہو گیا اور انہوں نے ہمت کر کے ان تمام آدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ اور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ ان کا جرم تو شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر جنگ ناگزیر ہو جاتی، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر جنگ کی بجائے صلح چاہتے تھے۔ کیوں کہ اسی میں مسلمانوں کا مفاد تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا۔ بطن مکہ سے مراد حدیبیہ ہے یعنی حدیبیہ میں ہم نے تمہیں کفار سے اور کفار کو تم سے لڑنے کا روکا۔ یہ اللہ نے احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔