وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا
اس نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا [٢٨] ہے جنہیں تم حاصل کرو گے۔ یہ (فتح خیبر) تو تمہیں جلدی ہی دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ تاکہ یہ ایمان [٢٩] لانے والوں کے لئے ایک نشانی [٣٠] بن جائے اور وہ تمہیں سیدھی [٣١] راہ کی طرف چلائے رکھے
حدیبیہ کے مقام پر جنگ نہ ہونے کی حکمتیں: یہ دیگر فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوشخبری ہے۔ جو قیامت تک مسلمانوں کو ہونے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بطور احسان مسلمانوں سے فرما رہے ہیں کہ کفار کے بد ارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا۔ نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینہ میں رہ گئے تھے کہ تمہاری غیر حاضری میں وہ مدینہ پر چڑھ آئے اللہ نے انہیں بھی تم سے روک دیا۔ ایمان والوں کے لیے نشانی: یہاں یہ آیت معجزہ ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ جسے مسلمان بظاہر اپنی شکست اور توہین سمجھ رہے تھے وہ در حقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کی کفار تو درکنار مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ دراصل یہ صلح کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دئیے یعنی ان کے حوصلے پست کر دئیے اور وہ مسلمانوں سے برسر پیکار نہیں ہوئے اور لوگ اس واقعہ کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت پر استقامت فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔