لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا
کوئی اندھا یا لنگڑا یا بیمار [٢٢] اگر جہاد میں شامل نہ ہو تو اس پر کوئی تنگی نہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لے، اللہ اسے ایسے باغوں [٢٣] میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گے اور جو سرتابی کرے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔
جہاد فرض عین نہیں: یہ منافق تو محض حیلے بہانے کرتے ہیں اصل لوگ جنہیں جہاد سے رخصت ہے وہ یہ ہیں جو جسمانی طور پر تندرست نہ ہوں۔ مثلاً اندھے، لنگڑے، اپاہج، بیمار، نابالغ، بچے اور ضعیف و ناتواں بوڑھے، بزرگ مجنون اور فاتر العقل وغیرہ۔ ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں جب تک وہ واقعی بیمار ہے، شرکت جہاد سے مستثنیٰ ہے۔ بیماری دور ہوتے ہی وہ حکم جہاد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار جنتی ہے۔ اور جو جہاد سے بے رغبتی کرے دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے معاش کے پیچھے آخرت کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔