فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
پس تم سستی نہ دکھاؤ اور نہ (دشمن سے) صلح کی درخواست [٣٩] کرو۔ تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال [٤٠] سے کچھ بھی کمی نہ کرے گا
مطلب یہ کہ جب تم تعداد اور قوت و طاقت کے اعتبار سے دشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہو جائے۔ غالب اور برتر ہوتے ہوئے کفر کے ساتھ مصالحت کا مطلب، کفر کے اثر و نفوذ کے بڑھانے میں اس کی مدد دینا ہے یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کافروں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ اجازت یقیناً ہے لیکن ہر وقت نہیں یہ اجازت صرف اس وقت ہے جب مسلمان تعداد میں کم ہوں اور وسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں۔ ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے۔ تاکہ مسلمان اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کر لیں۔ جیسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے: اس میں مسلمانوں کے لیے دشمن پر فتح و نصرت کی عظیم بشارت ہے کہ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتا ہے۔ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا۔