سورة محمد - آیت 14

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بھلا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل [١٥] پر ہو اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کے برے عمل اسے خوشنما بنا کر دکھائے جارہے ہوں اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہوں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

واضح دلیل سے مراد صاف رستہ ہے جو وحی الٰہی کی روشنی میں پوری طرح نظر آ رہا ہو یعنی جو شخص دین خدا میں یقین کے درجے پر پہنچ چکا ہو۔ جسے بصیرت حاصل ہو چکی ہو۔ اس کے پاس ہدایت اور علم بھی ہو۔ اور دوسرے کے پاس وہم و گمان کی تاریکیاں ہی تاریکیاں ہوں جو اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑا ہوا ہو۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں جیسا کہ سورہ رعد ۱۹ میں فرمایا کہ: ﴿اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى﴾ ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا کی وحی کو حق ماننے والا اور ایک اندھا برابر ہو جائے۔‘‘ سورہ حشر میں فرمایا کہ: ﴿لَا يَسْتَوِيْ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ﴾ ’’جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ جنتی کامیاب اور مراد کو پہنچتے ہوئے ہیں۔‘‘