وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ
اور جو لوگ ایمان [٢۔ الف] لائے اور نیک عمل کئے اور جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لائے، اور وہی ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے، اللہ نے ان کی برائیاں دور کردیں [٣] اور ان کا حال درست کردیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانے کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی جملہ جزئیات پر ایمان رکھتے تھے۔ اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے۔ انھیں متنبہ کیا گیا ہے۔ کہ اب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور تورات پر ایمان لانا سود مند نہ ہو گا وجہ یہ ہے کہ سابقہ تمام انبیاء کی شریعت علاقائی یا قومی بھی تھی اور عارضی بھی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہان کے لیے تا قیام قیامت رسول ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جملہ اہل عالم کے لیے تا قیام قیامت ہدایت کا ذریعے ہے لہٰذا اب ایسے یہود کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانا ہو گا۔ اللہ برائیاں دور کر دے گا: یعنی کافروں اور ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں، اللہ پر، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لائے، اور نیک اعمال بجا لاتے رہے، کافروں کا ظلم و ستم سہتے رہے، صبر اور برداشت سے کام لیتے رہے۔ تو اللہ ان کی سابقہ کوتاہیوں اور قصوروں کو معاف فرما دے گا اور جن مشکلات سے اس وقت وہ دو چار ہیں انھیں ان سے نکال کر حالات بہتر بنا دے گا۔ اور ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے، اس کے لیے چھینکنے والا یہ دعا دے: (یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیَصْلِحُ بَالَکُمْ) یعنی خدا تمھیں ہدایت دے اور تمھاری حالت سنوار دے۔ (بخاری: ۶۲۲۴)