سورة آل عمران - آیت 164

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان [١٥٨۔ ١] کیا ہے کہ ان کے درمیان [١٥٩] انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان (کی زندگیوں) کو سنوارتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم [١٦٠] دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نبی کا بشر ہونا اور انسانوں میں سے ہی ہونا یہ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ اس طرح وہ اپنی قوم کو قوم ہی کی زبان میں اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لیے آسان ہوگا۔ ہم جنس ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے قریب اور مانوس ہونگے۔ انسان کے لیے بشر کی پیروی تو ممکن ہے جبکہ فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں۔ فرشتے انسان کے شعور کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہیں اس لیے جتنے بھی انبیاء آئے سب کے سب بشر ہی تھے ۔ قرآن کریم میں ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْ اِلَيْهِمْ﴾ (یوسف: ۱۰۹) ہم نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اور فرمایا: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ يَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ﴾ (الفرقان: ۲۰) ’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے۔‘‘ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا۔ ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰى اِلَيَّ﴾ (حٰم السجدۃ: ۶) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح صرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے۔‘‘ انبیاء کی بعثت کے مقاصد: (۱) اللہ کی کتاب جوں جوں نازل ہو وہ لوگوں کو پڑھ کر سنائے تاکہ وہ بھی ان آیات کو سینوں میں محفوظ کرلیں۔ (۲) اپنے پیروکاروں کا تزکیہ نفس کرے ان کے اعمال و افعال پر نظر رکھے ان کی تربیت کرے ۔ (۳) کتاب اللہ کی تعلیم دے اور سکھائے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ پڑھ کر سنا دینا اور بات ہے اور اس کی تعلیم دینا اور بات ہے۔ تعلیم دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے معنی اور تشریح و تفسیر بھی بتائے۔ (۴) کتاب کے ساتھ حکمت بھی سکھائے حکمت بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک نظری اور دوسری عملی۔ یعنی انھیں آیات اللہ کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ کرے اور احکام الٰہی کو عمل میں لانے کے طریقے بھی بتائے، حکمت سے مراد سنّت ہے۔