قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
آپ ان سے کہئے : بھلا دیکھو، اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے ایسی ہی گواہی بھی دے دی [١٤] چنانچہ وہ تو ایمان لے آیا اور تم اکڑ بیٹھے؟ (تو تمہارا کیا انجام ہوگا ؟) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین سے کہو کہ اگر یہ قرآن سچ مچ خدائے تعالیٰ کی ہی طرف سے ہے۔ اور پھر بھی تم اس کا انکار کر رہے ہو تو بتلاؤ تمہارا کیا حال ہو گا وہ اللہ جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے تمہیں کیسی کچھ سزائیں کرے گا؟ تم اس کا انکار کرتے ہو، اسے جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ اس کی صحت اور سچائی کی شہادت وہ کتابیں بھی دے رہی ہیں جو اس سے پہلے انبیاء پر نازل ہوتی رہیں۔ اور بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اس کی سچائی کی گواہی دی۔ اس نے حقیقت کو پہچان کر اسے مانا اور اس پر ایمان لایا۔ اس شاہد نے اپنی کتاب اور اپنے نبی پر یقین کر لیا۔ لیکن تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ کفر کیا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ شاہد اسرائیلی کون تھا؟ بعض کہتے ہیں کی یہ بطور جنس ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے کا رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی ہے کیوں کہ یہ سورت مکی ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں صحیحین کی روایت میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے (بخاری: ۳۸۱۲، مسلم: ۲۴۸۳) اسی لیے امام شوکانی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔