أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خود ہی اسے بنا لایا [٩] ہے۔ آپ ان سے کہئے : اگر میں نے خود بنا لیا ہے تو تم مجھے اللہ (کی گرفت) سے بچانے کی کچھ بھی [١٠] طاقت نہیں رکھتے۔ جن باتوں میں تم لگے ہوئے ہو اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لئے کافی ہے اور وہ بخش دینے والا [١١] اور رحم کرنے والا ہے۔
خود ساختہ کلام: یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہے کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرنا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الٰہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہو گا۔ اسی مضمون کو قرآن میں یوں فرمایا: ’’اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو ہم البتہ اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ اور تم اس قرآن کی جس جس انداز میں بھی تکذیب کرتے ہو کبھی اسے جادو، کبھی کہانت، اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا بدلہ تمہیں دے گا وہ اس بات کی گواہی کے لیے کافی ہے کہ یہ قران اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ غرض رب تعالیٰ نے تنبیہ کے بعد رغبت دلائی ہے کہ جو توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا قرآن مان لے تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔