سورة آل عمران - آیت 161

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ نبی کے شایان شان نہیں [١٥٧] کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے [١٥٧۔ ١] دن اسی خیانت کردہ چیز سمیت حاضر ہوجائے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شان نزول: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت ایک سرخ رنگ کی روئی دار چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر کے دن اموال غنیمت میں سے گم ہوگئی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ شاید یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لیے رکھ لی ہو۔ (ابو داؤد: ۳۹۷۱، ترمذی: ۳۰۰۹) بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت بھی غزوہ اُحد سے ہی متعلق ہے جب ابتدا میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور وہ مال غنیمت اکھٹا کرنے لگے تو سیدنا عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں بھی اب درّہ چھوڑ کر مال غنیمت اکٹھا کرنے میں شامل ہوجانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں ہمارا حصہ ہی نہ لگائیں تو اس شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی سے ایسی نا انصافی اور خیانت ممکن ہی نہیں وہ تو اللہ کی طرف سے دنیا میں اللہ کا امین ہوتا ہے۔ (بخاری: ۴۰۴۳) بدظنی سے بچنا بہت ضروری ہے: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے ایک رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا بھیجا جس کی ابھی مٹی بھی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اس مال کے توہم زیادہ حقدار تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا کیا تم لوگوں کو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا یعنی اللہ تعالیٰ کا امین ہوں اور میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ ایک آدمی جسکی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی اور داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا ۔ اپنی تہبند اپنی پنڈلیوں سے اٹھا کر کھڑا ہوکر کہنے لگا ’’اے اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریے‘‘ آپ نے فرمایا ’’تیری بربادی ہو کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں۔ وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید نے عرض کیا ’’یارسول اللہ میں اس کی گردن نہ اُڑادوں مگر آپ نے اسے قتل کرنے کی اجازت نہ دی۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ پھیر لے جارہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہونگے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔ اور یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انھیں قتل کردوں گا۔ (بخاری: ۴۳۵۱، مسلم: ۱۰۶۴) اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر رسول اللہ غنائم اور صدقات کو تقسیم کرنے کی کوئی مصلحت ملحوظ رکھیں یا رفاہِ عامہ اور قوم کے لیے کچھ حصہ مال بیت المال میں جمع کریں یا کسی وجہ سے تقسیم میں دیر ہوجائے تو ان کے متعلق ہرگز بدگمانی نہ ہونی چاہیے ایسا کرنا نفاق ہے۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی ایسے ہی موقعہ پر مسلمانوں کے دلوں میں بدگمانی ڈالا کرتے تھے۔ ایسی بدگمانیوں سے قوم میں پھوٹ پڑجاتی ہے ۔ ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اسی لیے بدظنی سے اجتناب کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔