وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حقیقی مصلحت کے تحت [٣٢] پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی گئی: یعنی اللہ کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں کیا۔ پھر یہ سارا کارخانہ کائنات حکمت سے خالی ہو سکتا ہے ؟ جس کی ایک ایک چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور انسان اس سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ اب اگر انسان اچھے یا برے اعمال، جیسے بھی اس سے بن پڑیں اس دنیا میں کر کے مر جاتا ہے اور اس سے کچھ بھی مواخذہ نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کو پیدا کرنا، پھر اس کائنات کی چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کا موقعہ دینا سب کچھ بے سود، عبث اور ایک بے نتیجہ کھیل تھا۔ اور ایسا کام کرنا اللہ کی حکمت کے سرا سر منافی ہے۔ لہٰذا لازمی ہے کہ اس دنیا کا نتیجہ ایک دوسرے عالم کی صورت میں نکلے۔ اور یہی عدل ہے چنانچہ قیامت والے دن بے لاگ فیصلہ ہو گا۔ اور وہ ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ نیک و بد دونوں کے ساتھ وہ یکساں سلوک کرے۔ جیسا کہ کافروں کا زعم باطل ہے۔ جس کی تردید گزشتہ آیت میں کی گئی ہے۔ جس طرح کانٹے بو کر انگور کی فصل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح بدی کا ارتکاب کر کے وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے رکھا ہے۔