سورة الجاثية - آیت 17

وَآتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ ۖ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز انہیں دین کے واضح احکام [٢٢] دیئے۔ پھر جو انہوں نے اختلاف کیا تو (لاعلمی کی بنا پر نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد کیا اور اس کی وجہ ایک دوسرے [٢٣] پر زیادتی کرنا تھی۔ اور جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے تھے، قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان [٢٤] فیصلہ کردے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

 امر سے مراد: یہاں امر سے مراد اقامت دین ہے کہ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے انھیں تمام ہدایات دی گئی تھیں اور یہ ہدایت بالکل واضح تھی۔ کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ۔ یا معجزات مراد ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا علم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے شواہد وغیرہ۔ ایک دوسرے سے اختلاف: آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے، یا جاہ و منصب کی خاطر، انہوں نے اپنے دین میں، علم آ جانے کے باوجود اختلاف کیا۔ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار کیا تھا۔ پروردگار کا فیصلہ: یعنی تیرا رب ان کے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود ہی کر دے گا۔ یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بُری جزا دے گا۔