يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے ایمان والو! ان کافروں کی طرح [١٤٩] نہ ہوجانا کہ جب ان کے بھائی بند سفر پر یا جہاد پر نکلتے ہیں تو انہیں کہتے ہیں کہ : ''اگر وہ ہمارے پاس [١٥٠] رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے'' اللہ تعالیٰ ان کی اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت کا سبب [١٥١] بنا دیتا ہے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ انہیں خوب دیکھ رہا ہے
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس فاسد، عقیدہ سے روک رہے ہیں۔ جو کفار اور منافقین کا عقیدہ تھا۔ کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے۔ ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر پر نہ جاتا تو شاید بچ جاتا ۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مارسکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ موت تو بند قلعوں میں بھی آلیتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ (النساء: ۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اس لیے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتا ہے جن کے عقیدے صحیح ہیں کہ زندگی موت اللہ کے اختیار میں ہے۔