فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ
سو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان سے صریح [٨] دھواں ظاہر ہوگا
قریش پر قحط کا عذاب: یہ ان کفار کے لیے تہدیدو تنبیہ ہے۔ کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب کہ آسمان پر دھویں کا ظہور ہو گا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی اور شرارتوں پر کمر باندھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بد دعا فرمائی کہ اے اللہ ان پر (سیدنا) یوسف ( علیہ السلام ) کے زمانہ کی طرح سات سال کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ آخر ان پر ایسا سخت قحط نازل ہوا کہ وہ ہڈیاں اور مردار تک کھانے پر مجبور ہو گئے۔ اگر کوئی شخص بھوک کی شدت سے آسمان کی طرف دیکھتا تو ایک دھواں سا دکھائی دیتا۔ اس وقت ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ دعا کرو اللہ یہ قحط ختم کر دے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اور مشرک بھی کہنے لگے! پروردگار! ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے ہم ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا دیکھو جب یہ عذاب موقوف ہوگا تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگیں گے۔ خیر آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب اُٹھا لیا۔ تو وہ پھر کفر و شرک کرنے لگے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى ١ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْن) اس ارشاد میں ’’ بَطْشَۃً‘‘ سے مراد بدر کی سزا ہے۔ رہا آخرت کا عذاب تو وہ ان سے کبھی موقوف نہ ہو گا۔ (بخاری: ۱۰۰۷) بعض کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی دس بڑی علامات میں سے ایک علامت دھواں بھی ہے۔ جس سے کافر زیادہ متاثر ہوں گے اور مومن بہت کم ۔ آیت میں اسی دھوئیں کا ذکر ہے۔ اس تفسیر کی رو سے یہ علامت قیامت کے قریب ظاہر ہوگی۔ جب کہ پہلی تفسیر کی رو سے یہ علامت ظاہر ہو چکی ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اس کی شان نزول کے اعتبار سے یہ واقع ظہور پذیر ہو چکا ہے۔ جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ تاہم علامت قیامت میں بھی صحیح احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس لیے وہ بھی اس کے منافی نہیں ہے۔ اس وقت بھی اس کا ظہور ہو گا۔ عذاب دور کر دے: پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔