وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور فرعون نے (ایک دفعہ) اپنی قوم کے درمیان پکار [٥٠] کر کہا : اے میری قوم کیا یہ مصر کی بادشاہی میری نہیں؟ اور یہ نہریں (بھی) جو میرے نیچے بہ رہی ہیں؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا ؟
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسی نشانیاں پیش کر دیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تو فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری قوم موسیٰ علیہ السلام کی طرف مائل نہ ہو جائے چنانچہ اس نے اپنی ہزیمت کے داغ کو چھپانے اور قوم کو مسلسل دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ نئی چال چلی کہ اپنے اختیار و اقتدار کے حوالے سے موسیٰ علیہ السلام کی بے توقیری اور کمتری کو نمایاں کیا جائے۔ تاکہ میری قوم میری سلطنت و سطوت سے ہی مرعوب رہے۔ اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے بڑی ڈھٹائی سے کہا، کیا میں تنہا ملک مصر کا بادشاہ نہیں ہوں؟ کیا میرے باغات و محلات میں نہریں جاری نہیں؟ کیا تم میری عظمت و سلطنت کو دیکھ نہیں رہے؟ پھر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھو جو فقرا اور ضعفاء ہیں۔