وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ
اور (ہر بار) وہ یہی کہتے : اے ساحر! تیرے پروردگار نے جو تجھ سے (دعا کی قبولیت) کا عہد کر رکھا ہے تو ہمارے لئے [٤٨] دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے
کہتے ہیں کہ اس زمانے میں جادو مذموم چیز نہیں تھی اور عالم فاضل شخص کو جادو گر کے لفظ سے ہی بطور تعظیم کے خطاب کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں معجزات اور نشانیوں کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے فن جادو گری کا کمال ہے۔ اس لیے انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کے لفظ سے مخاطب کیا۔ اپنے رب سے دعا کرو: اپنے رب کے الفاظ مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیوں کہ مشرکوں کےمختلف رب اور الٰہ ہوتے تھے۔ فرعون اور آل فرعون کو پوری طرح معلوم ہو چکا تھا کہ آپ جادو گر نہیں فی الواقع اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ ان کی دعا سنتا ہے۔ اور اسے قبول بھی کرتا ہے۔ اسی لیے وہ عذاب اور مصیبت کے وقت آپ سے دعا کی درخواست کرتے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے۔ لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے۔