سورة آل عمران - آیت 145

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[١٣٢] موت کا وقت لکھا ہوا ہے۔ جو شخص دنیا میں ہی بدلہ کی نیت سے کام کرے گا تو اسے ہم دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا بدلہ چاہتا ہو اسے ہم آخرت میں بدلہ دیں گے اور شکرگزاروں [١٣٣] کو عنقریب ہم جزا دیں گے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

موت اللہ کے حکم سے : موت کا حکم لکھا ہوا ہے۔ ثواب دنیا، ثواب آخرت اور شکر کرنے والوں کی جزا کہ اس آیت میں مسلمانوں کو نہایت جرأت مندانہ باتوں کی تعلیم دی گئی ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ تو گھر بھی آسکتی ہے اللہ کے حکم کے سوا کوئی مر نہیں سکتا، موت کا وقت ہر شخص کا مقرر ہے۔ ثابت قدمی اور بہادری سے عمر گھٹ نہیں سکتی اور بزدلی اور کمزوری سے بڑھ نہیں سکتی۔ اللہ نے مومن کے اس عقیدے کو مضبوط کیا ہے کہ وہ راضی بہ رضا ہوجائے۔ اور مومن اس حقیقت کو تسلیم کرلیتا ہے تو مطمئن ہوجاتا ہے اس کی حرص ختم ہوجاتی ہے۔ اور وہ حق کے راستے کی ہر مشکل قبول کرلیتا ہے ۔ فرائض کی ادائیگی میں لگ جاتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے: اجر و ثواب کا انحصار نیتوں پر ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔ (بخاری: ۱، مسلم: ۱۹۰۷) یعنی جو لوگ صرف دنیاوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انھیں وہی دیتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔ اور آخرت طلب کرنے والوں کو اخروی نعمتیں تو ملیں گی ہی، دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انھیں نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ اس آیت میں سابقہ انبیاء اور مجاہدین کی مثال دیکر اہل اُحد کو ہدایت فرمائی ہے کہ وقتی شکست پر بے صبری یا بے دلی کا مظاہرہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ تم سے پہلے لوگوں پر زیادہ سختیاں آئیں مگر انھوں نے بے صبری اور بے دلی کا قطعاً مظاہرہ نہیں کیا اور نہ باطل کے آگے سرنگوں ہی ہوئے۔ یہ خطاب کمزور ایمان والوں سے ہے۔