سورة آل عمران - آیت 136

أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسے لوگوں کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں معاف کردے گا اور ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ (اچھے) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ مضمون قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے انبیاء اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا ان کا کیا انجام ہوا تھا۔ مثلاً قوم عاد،قوم ثمود، قوم نوح، قوم اصحاب مدین، اصحاب الحجر، قوم سبا وغیرہ کاکیا حشر ہوا، اسی طرح بعض اشخاص مثلاً فرعون اور آل فرعون کا کیا حشر ہوا۔ ایسے سب واقعات سے اللہ کی جو عادت جاریہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی میں انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پوری ہوکر رہتی ہے۔ یقین نہ آئے تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔