سورة غافر - آیت 66

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ [٨٩] کر پکارتے ہو، جبکہ میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس واضح دلائل بھی آچکے ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار بن کر رہوں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرکین کو دعوتِ توحید: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی! تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر کسی کی عبادت سے اپنی مخلوق کو منع فرما چکا ہے۔ اس کے سوا مدد کے لیے کسی کو مت پکارو۔ چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علیہم السلام اور صلحا ہوں اور چاہے قبروں میں مدفون اشخاص ہوں۔ ان کے ناموں کی نذر و نیاز مت دو۔ ان کے ورد نہ کرو۔ ان سے خوف مت کھاؤ۔ اور ان سے اُمیدیں وابستہ نہ کرو۔ کیوں کہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں۔ جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔ یہی وہ عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الٰہ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے۔ جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں، اسلام کے معنی اطاعت کے لیے جھک جانا اور سر اطاعت خم کر دینا ہے یعنی میں اللہ کے احکام کے سامنے جھک جاؤں، ان سے سرتابی نہ کروں۔