سورة غافر - آیت 7

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو (فرشتے) عرش اٹھائے ہوئے ہیں [٦] اور جو اس کے گرد ہیں سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور اس پر ایمان [٧] رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے لئے بخشش طلب کرتے (اور کہتے) ہیں : اے ہمارے پروردگار! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے لہٰذا جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی انہیں بخش دے اور دوزخ [٨] کے عذاب سے بچا لے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حاملین عرش فرشتوں کی مومنوں کے حق میں دعا: ان سرکش کفار کے مقابلہ میں دوسری طرف مسلمان تھے جن کا کافروں نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اسی وجہ سے کچھ مسلمان مکہ کو خیر آباد کہہ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تسلی اور دلجوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو۔ تمہارے حق میں تو عرش کےاٹھانے والے فرشتے اور ان کے آس پاس رہنے والے سب کے سب دست بدعا رہتے ہیں۔ اور اللہ کی حمد و ثنا جو ان کا وظیفہ اور روحانی خوراک ہے کے ساتھ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اور چوں کہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں۔ جو اللہ کی طرف سے انھیں حکم ملتا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ اللہ نے انھیں یہ حکم دیا ہے کہ وہ مومنوں کے حق میں دعا اور استغفار کرتے رہا کریں۔ چوں کہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان کے گناہوں کی معافی طلب کرنے کےلیے مقرر کر دئیے جو ان کی تقصیروں کی ہر وقت معافی طلب کیا کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے: یعنی تیرا علم اتنا وسیع ہے کہ تو اپنے بندوں کے سارے حالات ان کے گناہوں، ان کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے واقف ہے۔ تو تیری رحمت اس سے بڑھ کر وسیع ہے۔ لہٰذا جو لوگ توبہ کر چکے اور تیری راہ پر گامزن ہو چکے ہیں تو ان کے گناہ معاف کر کے انھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔