فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا [٦٥] ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے : مجھے تو یہ چیز علم [٦٦] (اور تجربہ) کی بنا پر حاصل ہوئی ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ ایک آزمائش [٦٧] ہوتی ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔
انسان کا ناشکرا پن: اللہ تعالیٰ انسان کا باعتبار جنس ذکر فرماتا ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب اس کو بیماری، فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا ہے۔ اور اس کے سامنے گڑ گڑاتا ہے۔ اور نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان ہے؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے۔ اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیوں کہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ یہ آزمائش ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف سے آزمائش ہے۔ گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری، لیکن یہ لوگ بے علم ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بے خبر ہیں۔