أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ
پھر جو شخص قیامت کے دن کے سخت [٤٠] عذاب کو اپنے چہرے پر روکے گا (اس کی بے بسی کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ اپنی ان کرتوتوں کا مزا چکھو جو تم کیا کرتے تھے۔
ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو۔ اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ ملک میں فرمایا: ﴿اَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖ﴾ (الملک: ۲۲) منہ کے بل چلنے والا، اور راست قامت یعنی اپنے پیروں سیدھی راہ چلنے والا برابر نہیں۔ ان کفار کو تو قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو۔ سورہ فصلت میں فرمایا: ﴿اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ (فصلت: ۴۰) جہنم میں داخل کیا جانے والا بد نصیب اچھایا امن و امان سے قیامت کا دن گزارنے والا اچھا؟ یہاں بھی اس آیت کا مطلب یہی ہے۔ حدیث میں ہے ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کافر کو قیامت کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ رب جس نے دنیا میں ان کو پاؤں کے بل چلایا وہ قادر نہیں کہ کل ان کو چہرے کے بل چلا دے۔(بخاری: ۴۷۶۰)