أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول [٣٣] دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشنی [٣٤] پر ہو (اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو کوئی سبق نہیں لیتا) لہٰذا ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے (اور) سخت [٣٥] ہوجاتے ہیں۔ یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
زندگی کی مثال تباہ شدہ کھیتی سے دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا، جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا، وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں؟ جیسے سورہ انعام (۱۲۲) میں فرمایا: ﴿اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا﴾ وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لیے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے۔ اور یہ اور وہ جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ جن سے چھٹکارا محال ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ پس یہاں بھی فرمایا جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے۔ احکام الٰہی کو ماننے کے لیے نہیں کھلتے، رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگ دل اور سخت دل ہیں۔ ان کے لیے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے۔ یہ بالکل گمراہ ہیں۔