سورة آل عمران - آیت 112

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جہاں بھی یہ لوگ پائے جائیں ذلت ان کے مقدر کردی گئی ہے الا یہ کہ اللہ کی یا دوسرے لوگوں کی ذمہ داری میں پناہ [١٠٢] لے لیں۔ یہ لوگ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں اور محتاجی ان پر مسلط کردی گئی ہے یہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کردیتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نافرمان تھے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جاتے تھے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔ جو یہ ہیں: (۱) انھوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی۔ (۲) اللہ کی حدود سے تجاوز کیا۔ (۳) اللہ کی آیات کا انکار کیا۔ (۴) حق کو چھپایا۔ (۵) اللہ کی کتاب میں تحریف کی، حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کر دیا۔ جب ان كی بدبختی انتہاء کو پہنچ گئی تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا، ذلت و رسوائی اور محتاجی ان کا مقدر کردی گئی۔ بچاؤ کی دو صورتیں۔ وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بتائی گئی ہیں۔ (۱) اللہ کی پناہ میں آجائیں یعنی اسلام قبول کرلیں، یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کرلیں۔ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ غیر مسلم حکومتوں کے سایہ تلے رہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1947ء تک اس کے کہ یہود باوجود دنیا کی مالدار ترین قوم تھے، پھر بھی دربدر پھرتے ہی رہے 1947ء کے بعد عیسائیوں یعنی برطانیہ اور فرانس اور امریکہ کی مدد سے ان یہودیوں کے لیے ایک چھوٹی ریاست قائم کی گئی ہے اگر آج یہ حکومتیں اسرائیل کی حمایت ترک کردیں تو فوراً اس کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔