أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں؟ یا ہم پرہیزگاروں اور بدکاروں کو یکساں [٣٦] کردیں؟
دوسری دلیل، عدل کا تقاضا: یعنی یہ آیت ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دئیے جانے کی ضرورت یا آخرت کے قیام پر ایک عقلی دلیل ہے کہ ایک نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی معاوضہ یا بدلہ نہ ملے۔ نہ بدکار کو اس کی بدکاری کی سزا ملے؟ اس دنیا میں اگر کوئی شخص ساری زندگی دوسروں کے حقوق غصب کرتا رہے۔ ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہے پھر مر جائے تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔ یا ایک انسان خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں کی بھلائی اور ہمدردی کرتا رہے۔ اور ساری زندگی دکھوں میں گزار کر مر گیا۔ تو اسے اس کے نیک اعمال کا کچھ بدلہ نہ دیا جائے۔ اور انجام کے لحاظ سے دونوں برابر ہو جائیں؟ تو ایک علیم و حکیم اور عادل ذات کا اقتضا یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس گنہگار سے اس کے گناہوں کا حساب لیا جائے۔ اور اس میں صابر و شاکر، پرہیز گار، فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا چاہیے۔‘‘