وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ
وہ ہمارے لئے تو مثال بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے، کہتا ہے کہ : ’’ہڈیاں جب بوسیدہ ہوچکی ہوں گی تو انہیں کون زندہ [٧٠] کرے گا ؟‘‘
ابی بن خلف ملعون ایک مرتبہ اپنے ہاتھ میں ایک بوسیدہ کھوکھلی ہڈی لے کر آیا اور اسے اپنی چٹکی میں ملتے ہوئے جب کہ اس کے ریزے ہوا میں اُ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کو اللہ زندہ کرے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں، ہاں اللہ تجھے ہلاک کر دے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر تیرا حشر جہنم کی طرف ہو گا۔ اس پر اس سورت کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ یعنی جو اللہ انسان کو ایک حقیر نطفے سے پید اکرتا ہے وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔ (تفسیر طبری ۲۰/۵۵۴) احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اُڑا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری راکھ جمع کر کے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے خوف سے، چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ (بخاری: ۳۴۵۲)