وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
ہم نے اس (نبی) کو شعر کہنا نہیں سکھایا [٦١] اور یہ اس کے لئے مناسب [٦٢] بھی نہ تھا۔ یہ تو ایک نصیحت اور واضح پڑھی جانے والی کتاب ہے
شاعری پیغمبرانہ شان کے منافی: مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے لیے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاعرانہ تک بندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی کہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے۔ بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط و تفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے۔ یوں گویا اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج اور طبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کی کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لیے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح آپ کا اُمی ہونا بھی قطع شبہات کے لیے تھا تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نے فلاں سے سیکھ کر اور پڑھ کر مرتب کر لیا ہے۔ البتہ بعض اوقات آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے تھے آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیوں کہ ایسا آپ کے قصد اور ارادہ کے بغیر ہوا، اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا۔ آپ کے اشعار: سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جہا دکے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھوکر لگی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی انگلی خون آلود ہو گئی اس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا: ھَلْ أَنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا لَقِیْتِ ’’تو انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہو گئی اگر تو اللہ کی راہ میں زخمی ہو گئی تو کیا ہوا۔‘‘ (بخاری: ۶۱۶۴) جنگ حنین میں ایک موقعہ ایسا آیا جب بہت سے صحابہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار بڑے جوش سے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُ لَا کَذِبَ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ’’ اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ (بخاری: ۴۳۱۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ کئی بیان جادو ہوتے ہیں اور یقیناً کئی شعر حکمت ہوتے ہیں۔ (ابو داؤد: ۵۰۱۱)