الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
آج ہم ان کے منہ بند [٥٨] کردیں گے اور ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے
ابتداً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ﴾ (الانعام: ۲۳) ’’اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کی زبانوں اور ہاتھ پاؤں کو قوت گویائی عطا کر دی جائے گی۔ تو ان کے یہ اعضا جن سے انھوں نے گناہ کے کام کیے ہوں گے ان کے خلاف گواہی دیں گے سورہ حم السجدہ میں ارشاد ہے: ﴿حَتّٰى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ کے مطابق ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت کے دونوں مرحلے طے ہو جائیں گے۔ اعضا و جوارح کی گواہی کیسے ہو گی: واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضا سے ان کے خلاف زبردستی گواہی نہیں لیں گے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سے جو اقوال اعمال اور افعال سرزد ہوتے ہیں تو اس کے اثرات (جسے سورہ یٰسین میں اَثَارھم کہا گیا ہے) فضا میں مرتسم ہوتے جاتے ہیں اور خود انسان کے اعضا پر بھی مرتسم ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق بنی آدم سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے اقوال، اور آوازیں بدستور فضا میں موجود ہیں مگر وہ آپس میں ملی جلی اور گڈ مڈ ہیں۔ اور انسان تا حال اس چیز پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی خاص شخص مثلاً کسی نبی کے تمام تر اقوال الگ کر کے سن سکے۔ا لبتہ انسان اس بات پر بھی قادر ہو چکا ہے کہ تین چار گھنٹے کے اندر اندر کسی مجرم کے اعضا کا خودربینی مطالعہ کر کے یہ معلوم کر سکے کہ اس شخص نے واقعی یہ جرم کیا ہے کہ نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ تو خود ہر چیز کا خالق، ہر چیز کی فطرت و حقیقت کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہٰذا جب مجرم لوگوں کے اعضا، کو قوت گویائی دی جائے گی وہ برملا بول اٹھیں گے کہ اس شخص نے ہمارے ذریعے فلاں فلاں گناہ کا کام فلاں فلاں وقت کیا تھا۔ (تیسیر القرآن)