قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ
کہیں گے :’’افسوس! ہمیں ہماری خواب گاہ سے کس [٤٩] نے اٹھا کھڑا کیا ؟‘‘ یہ تو وہی چیز ہے جس کا رحمٰن [٥٠] نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا
قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبر میں ان کو عذاب نہیں ہو گا۔ بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے۔ اس کے مقابلے میں انھیں قبر کی زندگی ایک خواب سی محسوس ہو گی۔ جب وہ اس ماحول کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالیں گے تو انھیں از خود یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ تو وہی چیز ہے جو رسول ہمیں کہا کرتے تھے اور ہم انکار کر دیا کرتے تھے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی اس سراسمیگی کی حالت میں اہل ایمان یا فرشتے انھیں مطلع کریں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ اور جب بھی رسول تمہیں اللہ کے اس وعدہ اور اس قیامت کے دن سے ڈراتے تھے تو ہر بار تم یہی کہہ دیتے تھے کہ وہ کب ہو گا سو آج اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھ لو۔