سورة آل عمران - آیت 76

بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بات یہ ہے کہ جس شخص نے بھی اللہ کے کئے ہوئے عہد کو پورا کیا اور اس سے [٦٦۔ ١] ڈر گیا تو اللہ ایسے ہی پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہودی اللہ سے بے باک اور نڈر ہوگئے تھے ان کے ذہن میں بس ایک ہی سودا سمایا ہوا تھا کہ چونکہ وہ انبیاء کی اولاد ہیں لہٰذا وہ جو کچھ بھی کرلیں۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کر دی گئی ہے۔ اسی زعم باطل کی بنا پر وہ اسرائیلوں کے اموال کو جائز و ناجائز طریقے سے ہڑپ کرنے کو کچھ جرم نہیں سمجھتے تھے۔ اللہ سے عہد کا مطلب: وہ عہد جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بارے میں لیا گیا تھا۔ اور ’’پرہیز گاری‘‘ کرے یعنی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ احکامات سے بچے اور ان باتوں پر عمل کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرما ئیں تو ایسے لوگ یقیناً مواخذہ الٰہی سے نہ صرف محفوظ و مامون رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہونگے، ایسے ہی متقی لوگوں میں سے ایک عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے كچھ ساتھی تھے جو نہ تو وعدہ خلافی کرتے تھے اور نہ اور لوگوں سے کسی طرح کی بد دیانتی اور ہیرا پھیری کرتے تھے اور جب انھیں یہ تسلی ہوگئی کہ یہ نبی واقعی وہی نبی ہے۔ جس کی تورات میں بشارت دی گئی ہے تو وہ بلا خوف ایمان لے آئے۔ اللہ کا ڈر ہو تو بندہ عہد اور امانت کو پورا کرتا ہے: خدا سے بے خوفی عقیدے کی خرابی ہے۔ ایفائے عہد کا تعلق دل سے ہوتا ہے حکمت کی اصل جڑ اللہ کا خوف ہے۔ سورۃبنی اسرائیل ۳۴میں فرمایا: عہد کو پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲) امانت میں خیانت کرے۔ (۳) وعدہ کرے تو جھوٹا کرے۔ ایک اور روایت میں چوتھی نشانی جھگڑا لو ہے۔ (بخاری: ۳۳)