وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
دو طرح کے سمندر ایک جیسے نہیں ہوسکتے جن میں ایک کا پانی میٹھا، پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار ہو اور دوسرا کھاری ہو، چھاتی جلانے والا۔ اور تم دونوں سے تازہ گوشت (بھی حاصل کرکے) کھاتے ہو اور زیور بھی نکالتے ہو جو تم پہنتے ہو [١٨]۔ اور اسی سمندر میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں پانی کو چیرتی پھاڑتی چلی جارہی ہیں تاکہ (ایسے سفر سے) تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔
قدرت الٰہی: مختلف قسم کی چیزوں کی پیدائش کو بیان کر کے اپنی زبردست قدرت کو ثابت کر رہا ہے۔ دریاؤں چشموں اور جھیلوں کا پانی عموماً میٹھا ہوتا ہے اور سمندروں کا پانی کھاری اور کڑوا۔ پہلی قسم کا پانی زندگی بخش ہے اور دوسری قسم کا پانی پینا تو درکنار اس سے انسان نہا بھی نہیں سکتا۔ گویا پانی دو قسموں میں بٹ گیا ہے اور کبھی کبھی ان دونوں قسم کے پانیوں کے دریا ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ان کے درمیان کچھ ایسا پردہ حائل ہوتا ہے کہ یہ آپس میں ملنے نہیں دیتا یہ تو ایک الگ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ زندگی بخش اور حیات افزا پانی کا ذخیرہ اور کڑوے پانی کا ذخیرہ دونوں ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ تاہم کچھ فوائد ایسے ہیں جو تمہیں ان دونوں قسم کے پانیوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں طرح کے سمندروں میں آبی جانور اور بالخصوص مچھلیاں وغیرہ پائی جاتی ہیں جو تمہارے لیے حلال ہیں۔ دونوں میں تم کشتی اور جہاز رانی کر کے تجارتی فوائد حاصل کرتے ہو۔ اور دونوں میں سے موتی، مونگے، ہیرے جواہرات اور مرجان وغیرہ نکالتے ہو۔ جو تمہارے زیورات میں کام آتے ہیں گویا جو پانی تمہارے پینے کے لحاظ سے ناکارہ تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اتنے کثیر فوائد رکھے ہوئے ہیں اور یہ نعمتیں تمہیں مفت حاصل ہو رہی ہیں جن پر تمہیں اللہ کا شکر بجا لانا چاہے۔ (تیسیر القرآن)