وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ
اللہ ہی تو ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل اٹھا لاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی مردہ بستی کی طرف چلا کرلے جاتے ہیں اور اس زمین کے مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں۔ انسانوں [١٣] کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔
موت کے بعد زندگی: قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے۔ کوئی تروتازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل اٹھتے ہیں، ان سے پانی برستا ہے پھر اس کی خشکی تازگی سے اور موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزا قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے۔ ایک سے ایک الگ ہو گا۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اُگنے لگیں گے۔ جیسے زمین سے دانے اُگ آتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے۔ لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی۔ اسی سے یہ پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے ترکیب دیا جائے گا۔ (بخاری: ۴۹۳۵، ابن کثیر)