سورة فاطر - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا [١] کرنے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں [٢] بنانے والا ہے۔ جن کے دو دو [٣]، تین تین اور چار چار بازو ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسے چاہے اضافہ [٤] کردیتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پیغام رساں فرشتے سے مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں: فرشتوں کے ذمہ کئی قسم کے کام ہیں۔ جن میں سے ایک کام پیغام رسانی بھی ہے۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں سے کسی کے دو، کسی کے تین اور کسی کے چار پَر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں بعض فرشتوں کے پَر اس سے بھی زیادہ ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھا، اس کے چھ سو پَر تھے۔ (بخاری: ۳۲۳۲) اور مشرق و مغرب کی پوری فضا اس سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ (مسلم: ۱۷۴، تیسیر القرآن) رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے مثلاً وہ انسان کی نسل جتنی چاہے بڑھاتا رہتا ہے۔ حیوانات و نباتات کی نئی سے نئی انواع وجود میں لاتا رہتا ہے۔ نئے سے نئے سیارے کائنات میں پیدا کرتا رہتا ہے اور کائنات کو ہر آن وسیع کر رہا ہے۔ (تیسیر القرآن)