وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا [٤٣] اور ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے [٤٤] نہیں۔
تمام اقوام کے لیے نبوت: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور راہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ضمن میں فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۸) ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی زندگی دیتا ہے۔ اور وہی موت دیتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ۔ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ان کا ابتاع کرو تاکہ تم راہ پر آ جاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا﴾ (الفرقان: ۱) ’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا۔ تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے۔‘‘ ایک حدیث میں آپ کا ارشاد ہے: ’’مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں (۱) مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے سے میری مدد فرمائی گئی (۲) تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے میری اُمت وہاں نماز ادا کرے (۳) مال غنیمت میرے لیے حلال کر دیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں تھا۔ (۴) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا (۵) پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا (بخاری: ۳۳۵، مسلم: ۵۲۳) ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’مجھے ہر سرخ اور کالے کی طرف بھیجا گیا ہے۔‘‘ احمر و اسود سے مراد بعض نے جن و انس اور بعض نے عرب و عجم لیے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح بے علمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی۔ اور فرمایا: ﴿وَ مَا اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (یوسف: ۱۰۳) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور فرمایا: ﴿وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ (الانعام: ۱۱۶) ’’اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کر دیں گے۔‘‘ جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔ (ابن کثیر)