فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
مگر وہ کہنے لگے : ''اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی مسافتیں دور دور [٣٠] کردے اور (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ چنانچہ ہم نے انھیں افسانے [٣١] بنا دیا اور تتر بتر کر ڈالا۔ اس میں یقیناً ہر صابر و شاکر [٣٢] کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔
جب انسان مال و دولت کے نشہ میں مست ہو جاتا ہے اور اسے ہر طرف سے آسودگی اور آسانیاں ہی میسر ہونے لگتی ہیں بعض دفعہ وہ اسی مستی میں بعض انہونی باتیں بھی بکنے لگتا ہے۔ کہ لوگ جس طرح سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دراز کر دے۔ (تیسیر القرآن) مسلسل آبادیوں کی بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے، گرمیوں میں دھوپ کی شدت اور سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں۔ اور راستے میں بھوک پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے ہمیں زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے۔ ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہو گیا اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ یعنی انہیں متفرق و منتشر کر دیا۔ چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے۔ کوئی یثرب و مکہ آ گیا کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا۔ کوئی کہیں اور کوئی کہیں۔ (احسن البیان) صابر و شاکر کے لیے نشانیاں: مصیبتوں پر صبر، نعمتوں پر شکر کرنے والے اس میں دلائل قدرت پائیں گے کہ اللہ کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں۔ عافیت کو ہٹا کر آفت کو لے آتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مومن کے لیے عجب فیصلہ کیا ہے۔ اگر اسے راحت ملے اور یہ شکر کرے تو اجر پائے گا اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو بھی اجر پائے گا۔ غرض مومن کو ہر حالت پر اجر و ثواب ملتا ہے۔ اس کا ہر کام نیک ہے یہاں تک کہ محبت کے ساتھ جو لقمہ اُٹھا کر یہ اپنی بیوی کے منہ میں دے، اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے۔ (مسند احمد: ۱/۱۷۳)