يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
جو کچھ سلیمان چاہتے تھے وہی کچھ وہ جن ان کے لئے بناتے تھے۔ مثلاً قلعے، مجسمے اور حوض جتنے بڑے لگن اور دیگیں ایک جگہ جمی رہنے [٢١] والی۔ اے آل داؤد! شکر کے طور پر عمل کرو [٢٢]۔ اور میرے بندوں میں سے کم ہی شکرگزار ہوتے ہیں
یہ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے آرڈر کے مطابق بڑے بڑے محل، مساجد، قلعے، مختلف مسجدوں کے ماڈل یا سینریوں کے ماڈل، بڑے بڑے لگن اور اتنی بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی بوجھل اور ناقابل حمل و نقل ہونے کی وجہ سے کسی خاص مقام پر نصب کر دی جاتی تھیں اور ان میں حضرت سلمان علیہ السلام کے لشکروں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ (تیسیر القرآن) شکر گزار بندے کم ہی ہیں۔ یعنی ایسے عمل کرو جو شکر گزار بندے کیا کرتے ہیں۔ محمد کعب قرظی فرماتے ہیں۔ شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیک عمل ہے۔ آل داؤد دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ (ابن کثیر) بخاری و مسلم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز تھی۔ آپ آدھی رات سوتے، تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے۔ اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے۔ آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بے روزہ اور ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے۔(بخاری: ۲۰۔ ۱۹۔ ۳۴، مسلم: ۱۱۵۹) حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا۔ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے۔ جواب ملا داؤد! اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی۔ جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔ (ابن ماجہ: ۱۳۳۲) پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندوں میں شکر گزار بہت کم ہیں۔ (ابن کثیر)