يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا
لوگ آپ سے قیامت کے متعلق [١٠٤] پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور آپ کو کیا خبر، شاید وہ قریب ہی آپہنچی ہو‘‘
قیامت قریب تر سمجھو: لوگ یہ سمجھ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنے نبی کی زبانی معلوم کرا دیا کہ اس کا مجھے مطلق علم نہیں، یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے سورہ اعراف مکہ میں اتری اس میں بھی یہ بیان ہے اور سورہ احزاب مدینہ میں نازل ہوئی جس سے ظاہر کرا دیا گیا کہ ابتدا سے انتہا تک قیامت کے صحیح وقت کی تعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھی۔ ہاں اتنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو باور کرا دیا تھا کہ قیامت کا وقت ہے قریب۔ جیسا کہ سورہ قمر (۱) قیامت قریب آ گئی۔ سورہ انبیا (۱) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا پھر بھی۔ اور سورہ نحل (۱) اللہ تعالیٰ کا حکم آ پہنچا اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ وہ بے خبری میں منہ پھیر ہوئے ہیں۔ میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ﴾ قیامت قریب آگئی اور آیت میں ہے ﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ﴾ اور آیت میں ہے ﴿اَتٰى اَمْرُ اللّٰهِ ﴾ وغیرہ۔ کافر اور منافق یہ سوال بار بار اس لیے کرتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زچ کرنے کے لیے ایک شغل بنایا ہوا تھا جس سے ان کی مراد محض پیغمبر اسلام اور دعوت اسلام کا مذاق اُڑانا تھا وہ اسے محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ (ابن کثیر)