يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر [٩٩] لٹکا لیا کریں۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
اس حکم کے ذریعے اوباش منافقوں کی چھیڑ چھاڑ کا سدِباب کر دیا گیا۔ نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور سب مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنی چادریں اپنے سر کے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ اس سے بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ لونڈیاں نہیں بلکہ شریف زادیاں ہیں۔ لہٰذا منافق انھیں چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ کر سکیں گے۔ (تیسیر القرآن) بڑی چادر اوڑھ کر باہر نکلیں: چادر کا اوڑھنا یا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی، اس لیے یہ چادر لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آواز کستے تھے۔ اس لیے یہ نشان ہو گیا کہ گھر گھرستن عورتوں اور لونڈیوں باندیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلا سکے۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بے پردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا۔ (ابن کثیر) ہاتھوں اور چہرے کا پردہ: عقلی توجیہ یہ ہے کہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لیے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پر کشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی تمام احکام بے سود ہیں۔ فرض کیجیے آپ کو شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کا چہرہ نہ دکھایا جائے۔ باقی تمام بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ دکھا دئیے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے۔ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو صرف لڑکی کا چہرہ دکھایا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے۔ اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے چنانچہ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسے دیکھا بھی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا’’ نہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جا اس کو دیکھ لے۔ اس لیے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے۔ (مسلم: ۱۴۲۴) اس حدیث میں بھی چہرہ دیکھنے کی ہدایت فرمائی۔ (تیسیر القرآن)