يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح [٤٥] نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان [٤٦] سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہٰذا صاف سیدھی بات کرو
ارشادات الٰہی کی روشنی میں اسوۂ امہات المومنین: اللہ تعالیٰ نبی کی بیویوں کو آدب سکھاتا ہے۔ یعنی تمہاری حیثیت و مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے۔ اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمہیں بھی امت کے لیے ایک نمونہ بننا ہے۔ چنانچہ انھیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کر کے کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اس سے مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنھیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے۔ لیکن انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصود پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے۔ اس لیے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ آواز پر پابندی : اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود میں مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی، اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس لیے اس آواز کے لیے بھی ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو، تاکہ کوئی بد باطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو۔ اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔ صاف سیدھی بات کہو: یعنی یہ روکھا پن صرف لہجے کی حد تک ہی ہو۔ زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ اگر اللہ سے ڈرتی ہو: یہ کہہ کر اشارہ کر دیا گیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات، جو آگے آ رہی ہیں متقی عورتوں کےلیے ہیں، کیوں کہ انھیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پرواہ کرتی ہیں۔ (احسن البیان)