يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا
وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ابھی لشکر گئے نہیں [٢٨] اور اگر یہ لشکر چڑھ آئیں تو وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ دیہاتیوں میں رہنے والے ہوتے اور بس تمہارے حالات ہی پوچھ لیا کرتے اور اگر وہ تم میں موجود بھی ہوتے تو (دشمن سے) لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔
ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ کفار کا لشکر لوٹ گیا ہے۔ اور انھیں خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے۔ بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اُجاڑ گاؤں یا کسی دور دراز کے جنگل میں ہوتے۔ کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بیکار ہیں۔ ان کے دل مردہ ہیں۔ نامرادی کے گھن نے انھیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے؟ (ابن کثیر)