يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں [١٤] نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
غزوہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی: ان آیات میں غزوہ احزاب کی کچھ تفصیل ہے۔ جو ۵ ہجری میں پیس آیا۔ اسے احزاب اس لیے کہتے ہیں کہ اس موقع پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز ’’ مدینہ‘‘ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب (حزب۔ گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لیے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینے کے اندر نہ آ سکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مسلسل بد عہدی کی وجہ سے مدینے سے جلا وطن کر دیا تھا یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا۔ اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادۂ قتال کیا۔ اور یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر کے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی، انھوں نے اُحد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کر لیا۔ ان کی مجموعی تعداد دس ہزار تھی جب کہ مسلمان تین ہزار تھے علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حی بن اخطب نے ورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے اپنے ساتھ ملا لیا۔ یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں آگئے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے خندق کھودی گئی جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے کے اندر نہیں آ سکا۔ اور مدینے کے باہر ہی رکا رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرے اور دشمن کی متحدہ یلغار سے سخت خوفزدہ تھے کم و بیش ایک مہینے تک یہ محاصرہ قائم رہا۔ مسلمان سخت خوف و اضطراب کے عالم میں مبتلا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرما یا گیا ہے۔ (جنود) سے مراد کفار کی فوجیں ہیں جو جمع ہو کر آئی تھیں تیز و تند ہوا سے مراد وہ ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا۔ اور جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہو گئے یہ وہی ہوا تھی جس کی بابت حدیث میں آتا ہے۔ ’’ میری مدد صبا (مشرقی ہوا) سے کی گئی اور عاد و ثمود (پچھمی) ہوا سے ہلاک کیے گئے۔‘‘ (بخاری: ۴۱۰۵) (وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا) سے مراد فرشتے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے انھوں نے دشمنوں کے دلوں پر ایسا خوف و دہشت طاری کر دی کہ انھوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ (القرآن الحکیم)