فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانتَظِرْ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ
سو آپ ان سے اعراض کیجئے اور انتظار کیجئے، وہ بھی یقیناً انتظار [٣١] کر رہے ہیں۔
یعنی ان مشرکین سے اعراض کر لیں اور تبلیغ و دعوت کا کام اپنے انداز سے جاری رکھیں جو وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی گئی ہے اس کی پیروی کریں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِتَّبِعْ مَا اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ (الانعام: ۱۰۶) آپ خود اس طریقیت پر چلتے رہیے جس کی وحی آپ کے رب (تعالیٰ) کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجیے۔‘‘ منتظر رہنے سے مراد: یعنی کہ اللہ کا وعدہ کب پورا ہوتا ہے اور تیرے مخالفوں پر تجھے غلبہ عطا فرماتا ہے؟ وہ یقینا پورا ہو کر رہے گا۔ یعنی یہ کافر منتظر ہیں کہ شاید پیغمبر ہی گردشوں کا شکار ہو جائے اور اس کی دعوت ختم ہو جائے، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا اور آپ پر گردشوں کے منتظر مخالفوں کو ذلیل و خوار کیا یا ان کو آپ کا غلام بنا دیا۔ (احسن البیان) الحمد للہ سورۃ السجدہ کی تفسیر مکمل ہوئی۔