وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جسے اس کے پروردگار کی آیات سے نصیحت کی جائے پھر وہ اس سے منہ موڑ لے۔ ہم یقیناً ایسے مجرموں سے انتقام [٢٣] لے کر رہیں گے۔
یعنی قیامت کا دن دراصل مجرمین سے بدلہ لینے کا دن ہے اس دن کوئی بھی مجرم اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اور جو شخص اپنے کبر و نخوت کی بنا پر اللہ کی آیات سننا اور ان سے سبق حاصل کرنا گوارا نہیں کرتا۔ بلکہ پہلے سے ہی منہ موڑ کر چل دیتا ہے وہ تو سب سے بڑا ظالم ہے۔ وہ بھلا اس دن انتقام سے کیسے بچ سکے گا۔ اللہ کی آیات (نشانیاں) کی پانچ اقسام: (۱) کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی آفاقی نشانیاں مثلاً، چاند، سورج، ستارے، گردش لیل و نہار، زمین کی قوت روئیدگی، ہواؤں اور بارشوں کا نظام وغیرہ وغیرہ۔ (۲)جو انسان کے اندر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں یعنی انسان کی تخلیق، جسم کی ساخت، اعضا کا خود کار نظام اور محیر العقول قوتیں جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہیں اسی جسم میں بعض ایسے داعیے بھی موجود ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں ہوتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر فوراً جاگ اٹھتے ہیں جیسے جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو مشرکین کیا دہریے تک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں (۳) تیسری قسم وہ تاریخی واقعات کہ جس قوم نے بھی اللہ کی راہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور اس کے رسول اور آیات کو جھٹلایا تو اللہ نے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا (۴)وہ نشانیاں ہیں جو مصائب کی شکل میں تنبیہ کے طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی بصورت عذاب ادنیٰ نازل کی جاتی ہیں۔ (۵)اللہ کی وہ آیات جو اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے انبیا پر وقتاً فوقتاً نازل کیں۔ ان آیات میں دراصل انسان پر سابقہ چاروں قسم کی آیات کو غور و فکر کے لیے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اور عقلی اور عام فہم دلائل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ (تیسیر القرآن)