تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
ان کے پہلو بستروں [١٨] سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں [١٩] دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
یعنی وہ راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور جتنا وقت دنیا دار اللہ کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی فرمانبرداری اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ وہ عذاب جہنم سے ڈر کر اور جنت کی امید رکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں یا عبادت کو اللہ کی رحمت اور مہربانی کی اُمید رکھ کر کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اس عمل میں کچھ تقصیر نہ رہ جائے اور وہ اللہ کے ہاں مقبول ہی نہ ہو۔ تاہم ان میں اللہ سے حسن ظن یا اس کی رحمت اور مہربانی کا پہلو ہی غالب رہتا ہے ۔ اور یہ پہلو زندگی بھر غالب رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن نہ رکھتا ہو۔‘‘ (مسلم: ۲۳۳۶) بستروں سے الگ رہنے اور اللہ کو پکارنے سے مراد نماز تہجد ہے۔ جس کی احادیث میں بہت فضیلت ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس سے صبح کی نماز مراد لی ہے۔ بعض نے عشا اور بعض نے نمازِ مغرب اور عشا کے درمیان نوافل کو مراد لیا ہے۔ تاہم راجح قول پہلا ہی ہے۔ ہمارے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں: یعنی صدقہ و خیرات کرتے ہیں اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ انفاق میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ) اور عام صدقہ و خیرات دونوں شامل ہیں اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔ تاکہ تزکیہ نفس ہوتا رہے اور بخل کے مرض سے دل پاک ہو۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آگ سے خود کو بچاؤ خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی سہی۔‘‘ (بخاری: ۴۸۱۴، تیسیر القرآن)