فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
پس اب اس بات کا مزا چکھو۔ جو تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔ اب ہم نے بھی تمہیں [١٦] بھلا دیا ہے اور جو کچھ تم کرتے رہے اس کی پاداش میں اب دائمی عذاب کا مزا چکھو
نا عاقبت اندیشو! اب خمیازہ بھگتو: لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دو بارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے، دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَوْ تَرٰى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ﴾ (الانعام: ۲۷) اسی لیے یہاں فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو ہر شخص تو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے اگر اللہ چاہتا تو لیکن اللہ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ انسانوں اور جنات سے جہنم کو پر ہونا ہے اللہ کی ذات اور اس کے پورے پورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں، دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو، اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْيَوْمَ نَنْسٰىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا﴾ (الجاثیۃ: ۳۴) ’’آج ہم تمہیں بھول جاتے ہیں جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھولے بیٹھے تھے۔‘‘ اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اب دائمی عذاب کا مزہ اٹھاؤ ارشاد ہے: ﴿لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًا۔ا ِلَّا حَمِيْمًا وَّ غَسَّاقًا﴾ (النباء: ۲۴۔ ۲۵) نہ کبھی اس میں خنکی کا مزہ چکھیں گے نہ پانی کا سوائے گرم پانی اور بہتی پیپ کے۔ (ابن کثیر)