أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں
تصنیف کے لیے مہارت لازمی ہے: کوئی انسان صرف اسی موضوع پر کتاب لکھ سکتا ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد جو کلام پیش کیا، نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس سے نبوت کے بعد والے کلام کے لیے کوئی اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو۔ پھر کیا کوئی شخص ایسا کام اپنی مرضی سے کر سکتا ہے جس سے سب لوگ اس کے دشمن بن جائیں؟ اگر یہ بات عقلاً محال ہے تو پھر یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام پر مامور کیا ہے۔ کہ وہ اللہ کا کلام لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ اس سے لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں تو ہو جائیں اسے دکھ پہنچاتے ہیں تو پہنچائیں۔ اور اس کے دشمن بنتے ہیں تو بن جائیں۔ مگر وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے سامنے اس بات کا پابند ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی ناخوشگوار پیش آئیں وہ اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچا دے۔ عربوں میں کون کون سے انبیاء مبعوث ہوئے: عربوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مدتوں پہلے ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے۔ اس کے بعد سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام مبعوث ہوئے پھر ان کے بعد سیدنا شعیب علیہ السلام پیدا ہوئے۔ باقی زیادہ تر انبیا شام اور فلسطین کے علاقہ میں مبعوث ہوتے رہے۔ سیدنا شعیب علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درمیانی وقفہ دو ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ اور اس طویل مدت میں سب انبیا عرب کی حدود سے باہر مبعوث ہوتے رہے اس لیے فرمایا کہ اہل عرب کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے قرآن اس لیے اترا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا۔ تاکہ وہ حق کی اتباع کر کے نجات حاصل کر لیں۔ (تیسیر القرآن، ابن کثیر)