يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب نہ تو کوئی باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام [٤٦] آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے۔ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے لہٰذا یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ [٤٧] میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکے بازتمہیں اللہ کے بارے [٤٨] دھوکہ میں ڈالے
اللہ کے روبر کیا ہوگا: قیامت کے دن باپ اپنے بیٹے کے یا بیٹا اپنے باپ کے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ ہر ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہوسکے گا ۔ اللہ تعالیٰ ڈرا رہاہے کہ اے دنیا پر اعتماد کرنے والو! آخرت کو فراموش نہ کرجاؤ ۔ شیطان کے فریب میں نہ آجاؤ وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا چاہتاہے۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا۔ نیند اُچاٹ ہوگئی تو اپنے رب کی طرف جھک پڑے ۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع و زاری کی، خوب رویا گڑ گڑایا ۔ نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، دعائیں مانگیں، ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کررہاتھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آگیا ۔ میں نے اس سے پوچھاکیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے ؟ یا باپ بیٹوں کے کام آئیں گے۔ اس نے فرمایاقیامت کادن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ خود سامنے ہوگا ۔ کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلاسکے گا۔کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا۔ نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے، نہ بھائی بھائی کے بدلے، نہ غلام آقا کے بدلے، نہ کوئی کسی کاغم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہوگا، نہ کسی پر رحم کرے گا، نہ کسی کو کسی کی شفقت و محبت ہوگی۔ ہر شخص نفسا نفسی میں ہوگا ہر ایک اپنی فکر میں ہوگا۔ ہر ایک کو اپنا روناپڑاہوگا ۔ ہر ایک کو اپنابوجھ اٹھاناہوگا کسی اور کا نہیں۔ (ابن کثیر) لہٰذا ہر انسان کو اس دن کی ہولناکی سے اپنے بچاؤ کی فکر خود کرناچاہیے۔ چنانچہ جب آیت (وانذر عشیرتک الاقربین) نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کراپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ہر ایک کانام لے لے کر فرمایاتھا کہ اپنی فکر خود کرلو۔ اس دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ (بخاری: ۲۷۵۳)